فتح اللہ گولن کی تنظیم پاکستان کے لیے بھی خطرہ ہے: صدر اردوغان

_92490071_gettyimages-459138337-1

ترکی کے صدر رجب طیب اردوغان نے کہا ہے کہ فتح اللہ گولن کی تنظیم پاکستان کی سلامتی کے لیے بھی خطرہ ہے اور اس سے منسلک ادارے کے خلاف پاکستانی حکومت کے اقدامات دیگر ممالک کے لیے ایک مثال ہیں۔

انھوں نے یہ بات جمعرات کو اسلام آباد میں پاکستان کے دورے کے دوران وزیراعظم نواز شریف کے ساتھ ایک مشترکہ پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہی۔

رجب طیب اردوغان بدھ کو دو روزہ دورے پر پاکستان پہنچے ہیں۔

 

پریس کانفرنس میں ترکی کی موجوہ حکومت کے ناقد فتح اللہ گولن کی تنظیم کے بارے میں بات کرتے ہوئے ترک صدر کا کہنا تھا کہ ‘یہ شدت پسند تنظیم پاکستان کے سکیورٹی اور امن کے لیے خطرہ ہے لیکن پاکستان اس کے خلاف لڑائی میں ہمارے ساتھ ہے۔’

ان کے مطابق اسی حوالے سے پاکستان کی جانب سے اس تنظیم سے منسلک پاک ترک ایجوکیشن فاؤنڈیشن کے افراد کو 20 نومبر تک ملک چھوڑنے کے لیے کہا گیا ہے۔

طیب اردوغان اور نواز شریف

خیال رہے کہ پاکستانی وزارتِ داخلہ نےاس فاؤنڈیشن کے لیے کام کرنے والے 400 سے زیادہ ترک شہریوں کے ویزوں میں توسیع سے انکار کر دیا تھا۔ ان افراد میں ترک طلبا بھی شامل ہیں جن کے تعلیمی مستقبل کے بارے میں خدشات ظاہر کیے گئے ہیں۔

اس سلسلے میں ترک صدر نے کہا کہ’ان تعلیمی اداروں کے طلبا کا خیال رکھا جائے گا۔ ہم پاکستان کی وزارت تعلیم اور معارف فاؤنڈیشن کے درمیان تعاون اور مشترکہ کوششوں پر ان کا شکریہ ادا کرتے ہیں۔’

طیب اردوغان کا کہنا تھا کہ فتح اللہ گولن سے منسلک ادارے کے معاملے پر ترک حکومت سے یکجہتی کا مظاہرہ کیے جانے پر وہ پاکستانی حکام کے شکرگزار ہیں اور انھیں ‘امید ہے کہ پاکستان کا یہ رویہ دیگر دوست ممالک کے لیے ایک مثال ہوگا۔’

ان کا کہنا تھا کہ ‘ہم اس وقت شیطانی نیٹ ورک اور قاتلوں کے گروہ کے خاتمے کے لیے ضروری اقدامات اٹھانے کے عمل سے گزر رہے ہیں اور کوشش کریں گے کہ اس تنظیم کو پاکستان میں چھپنے کے لیے کوئی جگہ نہ ملے۔’

طیب اردوغان نے 15 جولائی کو ترکی میں ہونے والی بغاوت کی ناکام کوشش پر پاکستانی عوام کے ردعمل کو سراہا اور کہا کہ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ پاکستان ترکی کا بہترین دوست ہے۔

انھوں نے کہا کہ ‘ہم بھی پاکستان کو دہشت گردی کے خلاف جنگ میں تنہا نہیں چھوڑیں گے۔ کیونکہ دہشت گردی کے خلاف دونوں ممالک کا نقطہ نظر ایک ہی ہے اور دہشت گردی کے خلاف جنگ کے حوالے سے ہم اپنے تجربے کی بنیاد پر پاکستان کو ہر طرح کی امداد فراہم کرنے کو تیار ہیں۔’

طیب اردوغان اور نواز شریف

ترک صدر کا کہنا تھا کہ وقت کے ساتھ ساتھ پاکستان اور ترکی کے درمیان سیاسی، معاشی اور عسکری تعاون میں بہتری آرہی ہے اور ترکی 2017 سے پہلے پاکستان کے ساتھ آزادانہ تجارت کا معاہدہ کر لے گا۔

انھوں نے پاک افغان تعلقات کے حوالے سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ہماری خواہش ہے کہ افغانستان اور پاکستان کے درمیان تعاون میں بہتری آنی چاہیے جبکہ پاکستان افغانستان اور ترکی سہ فریقی معاہدہ اہمیت کا حامل ہے۔

اس سے قبل خطاب کرتے ہوئے وزیر اعظم پاکستان میاں محمد نواز شریف نے کہا کہ پاکستان ترکوں کو دوسرا گھر ہے اور ترکی میں بغاوت کی کوشش سے پاکستان کو دھچکا پہنچا تھا۔

ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ ترک عوام نے بغاوت کی کوشش ناکام بناکر نئی تاریخ رقم کی ہے۔

پاکستانی پارلیمان کے مشترکہ اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے ترک صدر رجب طیب اردوغان نے کہا کہ ‘میرا یقین کے کہ ہمیں دہشت گرد تنظیموں کے خلاف تعاون اور یکجہتی قائم رکھیں اور اسے مزید بڑھائیں۔’

ان کا کہنا تھا کہ ‘القاعدہ اور اس کی اتحادی داعش جیسی دہشت گرد تنظیمیں نے اسلام نے خلاف جنگ شروع کر رکھی ہے اور اس سے صرف اور صرف مسلمانوں کو نقصان پہنچ رہا ہے۔ ہمیں ان قاتلوں کے گروہوں کو جلداز جلد ختم کرنا ہوگا اسلامی دنیا اور دنیا بھر سے ، جن کے پاس مسلمانوں کا خون بہانے کے علاوہ کوئی ہنر نہیں۔’

ترک صدر نے مسئلہ کشمیر کے حوالے سے کہا کہ کشمیر کا مسئلہ 70 سال سے حل طلب ہے۔

‘کشمیر کی موجودہ صورتحال ایک بار پھر اس مسئلے کے حل کی اہمیت اور فوری ضرورت کو ظاہر کرتی ہے۔’

انھوں نے اس خواہش کا اظہار کیا کہ پاکستان اور انڈیا کشمیر عوام کے مطالبات کو ملحوظ خاطر رکھتے ہوئے کشمیر کے مسئلے کا حل براہ راست مذاکرات کے ذریعے تلاش کریں۔

Comments are closed.