غیرت کے نام پر قتل اور ریپ کے بارے میں قوانین منظور

غیرت کے نام پر قتل کے بارے میں قانون دو سال سے التوا کا شکار تھا

غیرت کے نام پر قتل کے بارے میں قانون دو سال سے التوا کا شکار تھا

پاکستان کی پارلیمنٹ نے غیرت کے نام پر قتل اور ریپ سے متعلق بل متفقہ طور پر منظور کرلیے ہیں۔ یہ دونوں بل پارلیمنٹ میں حزب مخالف کی سب سے بڑی جماعت پاکستان پیپلز

پارٹی کے سینیٹر فرحت اللہ بابر نے پیش کیے تھے۔

اس بل کے تحت غیرت کے نام پر قتل کے مقدمات کو ناقابل تصفیہ قرار دیا گیا ہے اور بل کے تحت مجرم قرار دیے جانے والے شخص کو عمر قید سے کم سزا نہیں دی جاسکے گی۔

ریپ کے مقدمات میں ڈی این اے ٹیسٹ کو لازمی قرار دیا گیا ہے۔ اس کے علاوہ متاثرہ خاتون کی شناخت ظاہر نہیں کی جاسکے گی۔

ریپ کے مقدمات کے بارے میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ ان مقدمات کا فیصلہ نوے روز میں ہوگا۔ یہ دونوں بل گذشتہ ڈھائی سال سے التوا کا شکار تھے اور حکمراں اتحاد میں شامل کچھ جماعتوں کے تحفظات کی وجہ سے یہ دونوں بل تاخیر کا شکار ہوئے۔

اس بل میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ ریپ کے واقعات اگر تھانے کی حدود میں ہوں گے تو اس پر مجرم کو دوہری سزا دی جائے گی۔

حزب مخالف کی جماعت متحدہ قومی موومنٹ نے اس بل میں دی گئی سزاوں پر تحفظات کا اظہار کیا اور ان کا کہنا تھا کہ جو بل سینیٹ میں پیش کیا گیا تھا اس میں ان جرائم کی سزائے موت تجویز کی گئی تھی جس پر وفاقی وزیر قانون زاہد حامد کا کہنا تھا کہ مجرم کو 25 سال سے کم سزا نہیں ہوسکے گی۔

واضح رہے کہ پاکستان میں غیرت کے نام پر قتل سے متعلق قانون کا اطلاق سوشل میڈیا کی سلیبرٹی قندیل بلوچ کے قتل کے مقدمے میں کیا گیا جس کے تحت مدعی مقدمہ چاہے بھی مجرموں کو معاف نہیں کرسکتا۔

خواتین کے حقوق کے لیے کام کرنے والی تنظیموں نے دونوں بلوں کی منظوری کے بعد اطمنان کا اظہار کیا ہے۔

Comments are closed.