صدر روحانی کےدورۂ یورپ کو کیسے دیکھا؟

160125144829_iran_president_hassan_rouhani_l_shakes_hands_with_italian_president_sergio_mattarella__640x360_reuters_nocredit

ایرانی صدر حسن روحانی رواں ہفتے اپنے پہلے سرکاری دورے پر اٹلی اور فرانس گئے۔ ایران 12 سالہ بین الاقوامی تجارتی پابندیوں کے سائے سے نکل رہا ہے اور صدر کی شاپنگ کی فہرست کافی طویل ہے۔

صدر حسن روحانی کے اس دورے کے بارے میں ایرانیوں کا کیا کہنا ہے؟

ایرانی صدر کی میزبانی، عریاں مجسموں کوڈھانپ دیا

پورے ہفتے ایران میں صدر روحانی کا یورپ کا دورہ سرخیوں میں رہا۔ آخری مرتبہ ایرانی صدر نے 16 سال قبل یورپ کا دورہ کیا تھا۔

ایک دہائی سے زیادہ عرصے تک پابندیوں کا شکار رہنے کے بعد اب جب ایران بین الاقوامی منظر نامے پر واپس آیا ہے تو اندرونی اور بیرونی سطح پر ممکنہ طور پر بڑی تبدیلیوں کی توقع کی جا رہی ہے۔

صدر روحانی کے ساتھ اس دورے پر ایران سے صحافیوں کی ایک ٹیم بھی گئی جو ان کے ہر قدم کی خبر دے رہی تھی۔

ان صحافیوں میں سے تو ایک صحافی کو روم کے ایئر پورٹ پر اپنی رپورٹ کے لیے سیلفی سٹک کو اس طرح ٹھیک کرتے دیکھا گیا کہ ان کے پس منظر میں ایرانی صدر بھی دکھائی دیں۔

Image copyrightEPA

اس دورے کا مقصد وہ اربوں ڈالر کے معاہدے تھے جو صدر نے بڑی فرانسیسی اور اطالوی کمپنیوں سے طے کیے۔

ان معاہدوں میں تعمیرات، گاڑیاں بنانے اور ایئر بس کے ساتھ مسافر طیاروں کی نئی کھیپ کا معاہدہ شامل ہے۔

ان تمام معاہدوں کا اثر لازمی طور پر عام ایرانیوں کی زندگیوں پر پڑے گا۔

ایران کے سرکاری ٹی وی کے مطابق: ’اٹلی لمبے عرصے سے ایرانی بازاروں سے دور رہنے کی تلافی کرنے کے لیے ایران کے ساتھ جلد از جلد تجارتی معاہدے کرنا چاہتا ہے۔‘

اس صدارتی دورے سے ایرانیوں کو واضح اشارہ ملتا ہے کہ ان کا ملک واپس اپنی جگہ پر آگیا ہے۔

کئی افراد نے تو صدر روحانی کے فیس بک صفحے پر ایرانی وقار کو بین الاقوامی سطح پر بحال کرنے کی کوششوں پر ان کا شکریہ ادا کیا ہے۔

تاہم ہر طبقے کی جانب سے پرجوش ردِ عمل نہیں آیا۔

کوئی مثبت خبر سننے کے لیے اتنا لمبا عرصہ صبر کرنے کے بعد بھی ایران میں کئی افراد کافی محتاط ہیں۔

ایک فیس بک صارف محمد کا کہنا ہے کہ ’ان تمام معاہدوں سے ہونے والے فوائد کا 20 فیصد بھی ہمیں حاصل نہیں ہو گا۔‘

ایک اور صارف حسین نے اسی تبصرے پر سوال کرتے ہوئے کہا کہ ’20 فیصد؟ شاید ایک فیصد ہو سکتا ہے۔‘

ایرانی صدر حسن روحانی کے اس دورے کا ایک رخ ایسا بھی ہے جس کے بارے میں سوشل میڈیا پر بہت بات کی گئی اور وہ یہ کہ ان کے احترام میں اطالوی میزبانوں نے روم کے کیپیٹولین میوزیئم میں موجود برہنہ مجسموں کو ڈھانپ دیا تھا۔

برہنہ مجسموں کو ڈھانپنے پر ایرانیوں کی حس مزاح نے بنا وقت ضائع کیے کہانی بنا ڈالی۔ کئی لطیفے، خاکے اور فوٹوشاپ شدہ تصاویر فوراً گردش کرنے لگیں۔

نامور خاکے بنانے والے مانا نیستانی نے خواتین کی حجاب کی جانب سے حوصلہ افزائی کرنے والے مشہور ایرانی نعرے کا استعمال کرتے ہوئے ایران نیوز وائر ویب سائٹ کے لیے نیا خاکہ بنایا۔

روم کی دیوار پر لکھے نعرے کے مطابق: ’ڈبہ آپ کو محدود نہیں کرتا، یہ آپ کو استثنا دیتا ہے۔‘

اسی خاکے میں اس دیوار کے قریب سے گزرتے ہوئے صدر روحانی خوشی سے دیکھتے ہوئے کہہ رہے ہیں کہ ’کیا یہ اچھا نہیں کہ آپ اٹلی میں اپنے وطن کو یاد نہیں کر رہے؟‘

بعض تصاویر میں شاہکار مجسموں کو جینز پہنے دکھایا گیا اور ان میں سے دو بہت مشہور ہونے والی تصاویر میں ایک مونا لیزا اور آئفل ٹاور کی ایرانی چادر میں لپٹی تصاویر ہیں۔

ایرانی صدر اور فرانسیسی صدر کے درمیان کھانا اس وجہ سے منسوخ ہوا کیونکہ میزبانوں نے کھانے کے مینیو سے وائن کو نکالنے سے انکار کر دیا تھا جس پر بحث چھڑ گئی تھی۔

کٹر قدامت پرست اخبار کیہان نے سابق نائب صنعتی وزیر کے حوالے سے لکھا کہ انھوں نے ماضی میں فرانسیسی گاڑیاں بنانے والی کمپنیوں پرژو، سٹرون اور رینالٹ کے بارے میں کہا تھا کہ ’وہ قابل اعتماد شراکت کار نہیں ہیں۔‘

تاہم عام طور پر سخت گیر ذرائع ابلاغ کا تنقیدی لہجا خاصہ نرم رہا ہے۔

Comments are closed.