’سٹیل ملز دوبارہ چلانے میں 40ارب کے واجبات بڑی رکاوٹ‘

4500 ایکڑ رقبے پر قائم پاکستان سٹیل ملز میں تین گنا توسیع کی گنجائش موجود ہے

4500 ایکڑ رقبے پر قائم پاکستان سٹیل ملز میں تین گنا توسیع کی گنجائش موجود ہے

پاکستان کی حکومت نے ملک کے سب سے بڑے صنعتی یونٹ اور ملک میں سٹیل بنانے والے واحد ادارے پاکستان سٹیل ملز کی نجکاری کا عمل دوبارہ شروع کرنے کا اعلان کیا ہے اور اِس سلسلے میں مالیاتی ڈھانچہ تیار کر لیا گیا ہے۔

پاکستان میں نجکاری کمیشن کے چیئرمین محمد زبیر نے بی بی سی اردو کو بتایا کہ سٹیل ملز کے دوبارہ چلائے جانے میں سب سے بڑی رکاوٹ اس کی گیس کا منقطع ہونا ہے جس کے واجبات 40 ارب روپے سے تجاوز کر گئے ہیں اور اُن کی ادائیگی کرنے کی سکت فی الحال سٹیل ملز میں نہیں ہے۔

٭ دعوؤں کے برعکس پی آئی اے اور سٹیل مل کی نجکاری کا فیصلہ

٭ سندھ حکومت پاکستان سٹیل ملز خریدنے کی خواہش مند

محمد زبیر نے کہا ’نجی شعبے کا جو بھی ادارہ سٹیل ملز کو خریدنے کی خواہش ظاہر کرے گا تواُس سے اِس بات پر مذاکرات کیے جائیں گے کہ وہ پہلے گیس کے واجبات ادا کرے گا پھر مل اس کے حوالے کی جائے گی۔‘

نجکاری کمیشن کے سربراہ نے سٹیل ملز کے لیے بیل آؤٹ پیکیج دینے کے امکان کو یکسر مسترد کر دیا اور اور کہا کہ چین کے چند اداروں نے پاکستان سٹیل ملز کی خریداری میں اپنی دلچسپی ظاہر کی ہے اور حکومت کے منصوبے کے تحت سٹیل ملز کو رواں برس دسمبر کے مہینے میں دوبارہ چلایا جا سکے گا۔

پاکستان سٹیل ملز

25 ارب

کی لاگت سے 1973 میں بنائی گئی

  • 3500 ٹن فعال حالت میں اس کارخانے کی روزانہ ہیداوار تھی
  • 14000 افراد اس مل میں کل وقتی یا جز وقتی ملازم ہیں
  • 19000 ایکڑ سٹیل ملز کا ملکیتی رقبہ ہے جبکہ کارخانہ 4500 ایکٹر پر قائم ہے
  • 110 میگا واٹ کا تھرمل بجلی گھر بھی مل میں واقع ہے جو نیشنل گرڈ کو بھی بجلی فراہم کرتا تھا

ایک سوال کے جواب میں محمد زبیر نے تسلیم کیا کہ چین پاکستان اقتصادی راہداری کے لیے سٹیل کی سب سے زیادہ ضرورت ہو گی اسی وجہ سے حکومت نجکاری کے عمل کو تیزی سے آگے بڑھانا چاہتی ہے۔

تاہم اُنھوں نے خبردار کیا کہ سٹیل ملز کی موجودہ حالت میں اُس کے اثاثے دراصل واجبات کی شکل اختیار کر گئے ہیں اور خدشہ ہے کہ اُس کی وہ قیمت نہ مل پائے جس کا اندازہ لگایا جا رہا ہے۔

4500 ایکڑ رقبے پر قائم پاکستان سٹیل ملز میں تین گنا توسیع کی گنجائش موجود ہے اور یہ ملک کا واحد ادارہ ہے جو خام لوہے سے سٹیل تیار کرتا ہے جبکہ باقی سب رولنگ کرتے ہیں۔

پاکستان سٹیل ملز کے ملازمین کی سی بی اے یونین کے سربراہ شمشاد قریشی حکومت پر پاکستان سٹیل ملز کے تناظر میں مفادات کے تصادم کا الزام لگاتے ہیںْ۔

’اگر کسی کے خاندان کا کاروبار کسی بھی شعبے میں ہو تو اُسے ایک عام آدمی کے مقابلے میں اُس کے چلانے یا پھر بحالی کا زیادہ تجربہ ہوتا ہے لیکن اگر موجودہ حکومت کو دیکھا جائے تو معاملہ بالکل الٹ ہے۔‘

نجکاری کمیشن کے سربراہ نے سٹیل ملز کے لیے بیل آؤٹ پیکیج دینے کے امکان کو یکسر مسترد کر دیا

ان کا کہناہے کہ موجودہ حکومت کو تین سال ہو گئے اور وفاق کے تحت چلائی جانے والی سٹیل ملز کا نہ بورڈ آف ڈائریکٹرز مکمل ہوا اور نہ ہی بورڈ کے چیئرمین کی تقرری عمل میں آئی ہے۔‘

یہ بورڈ اف ڈائریکٹرز ہی سٹیل مل کے معاملات چلاتا ہے۔

شمشاد قریشی نے دعوی کیا ’جب چین پاک اقتصادی راہداری کی بات ہو رہی ہے تو پاکستان سٹیل ملز نہ صرف بحال ہو سکتی ہے بلکہ منافع بخش بھی ہو سکتی ہے، تنخواہوں کے مسائل حل ہو سکتے ہیں اور یہ حکومتِ پاکستان کو اربوں روپے کے ٹیکس دینے کی حالت میں آ سکتی ہے۔‘

خیال رہے کہ پاکستان سٹیل مل کا بہترین پیداواری برس سنہ 1993 تھا اور یہ ٹیکس کی مد میں حکومت کو اب تک 105 ارب روپے سے زیادہ ادا کر چکا ہے۔

مزدور رہنما نے الزام لگایا کہ حکومت نے چند مخصوص درآمد کنندگان کو فائدہ پہنچانے کے لیے سٹیل کی درآمد پر ڈیوٹی نہ ہونے کے برابر رکھی ہے جو اول درجے کے سٹیل کو دوسرے درجے کا سٹیل دکھا کر درآمد کرتے ہیں اور ٹیکس بچا رہے ہیں جبکہ قومی ادارہ اُس کم رقم میں چلایا جا سکتا ہے جو اِس سٹیل کی برآمد پر چھوڑی جا رہی ہے۔

پاکستان میں نجکاری کمیشن کے چیئرمین محمد زبیر نے وزیرِ اعظم یا اُن کے خاندان کے سٹیل ملز کے تناظر میں مفادات کے تصادم کے الزام کو مسترد کیا ہے۔

شمشاد قریشی نے خبردار کیا کہ ’پاکستان کی مدر انڈسٹری کے ساتھ اگر حکومت کی یہی بے حسی رہی تو پھر یہاں سے اُٹھنے والی چنگاری پھر آتش فشان بنے گی۔‘

14 ماہ سے بند اِس ادارے کے 14 ہزار سے زیادہ ملازمین اپنی تنخواہوں کے منتظر ہیں اور سٹیل مل کو دوبارہ چلائے جانے کے لیے دعاگو بھی ہیں۔

پاکستان سٹیل مل کا بہترین پیداواری برس سنہ 1993 تھا

پاکستان سٹیل ملز کے ریلوے کے شعبے میں کام کرنے والے ایک ملازم محمد جاوید خان نے بی بی سی کو بتایا کہ انھیں چار ماہ سے تنخواہ نہیں ملی اور طبی سہولیات جو اُن کا ادارہ فراہم کرتا ہے وہ بھی بند ہوگئی ہیں۔

ان کے مطابق ایسی صورتحال میں اُن کے بچوں کو سکول سے نکال دیا گیا ہے جبکہ ایک بچہ کالج میں تعلیم جاری نہ رکھ سکا اور اب نوکری کی تلاش میں ہے۔

اُنھوں نے بتایا کہ نوبت یہاں تک آ پہنچی ہے کہ گھر میں معمولی چیزیں خریدنے کے لیے پیسے نہ ہونے کی وجہ سے اکثر اُن کی زوجہ سے تکرار ہو جاتی ہے۔

Comments are closed.