بلوچستان کے نامور لوک گلوکار اخترچنال زہری حسن کاکردگی ایوارڈ کی کاپی ہمیشہ اپنے ساتھ رکھتے ہیں، انھوں نے شکوہ کیا کہ انھوں نے اپنی زندگی اس ملک کے لیے وقف کردی اور لیکن ان کی پہچان نہیں بن سکی ہے۔
بی بی سی سے اردو کے ساتھ ایک خصوصی انٹرویو میں انھوں نے بتایا کہ وہ ایک پاکستانی اور سینئیر شہری ہیں وہ فضائی سفر کے اخراجات برداشت نہیں کرسکتے اس وجہ سے ٹرین میں سفر کرتے ہیں، لیکن معلوم نہیں ہے کہ ریلوے پولیس کیوں ان کے پیچھے پڑ گئی ہے۔
روہڑی سے ٹرین جیسے روانہ ہوتی ہے لاہور تک تذلیل کی جاتی ہے، جامہ تلاشی کے ساتھ ہمارے، نیفے ڈھونڈتے ہیں، قمیض کے کالروں اور جیبوں کو ٹٹولا جاتا ہے پیسے نکال کر سونگھتے ہیں کیا ہم منشیات فروش ہیں۔
اختر چنال کے مطابق وہ ریلوے پولیس کو کہتے ہیں کہ آپ اس لیے میری تلاشی لے رہے ہیں کہ میری بدقسمتی ہے کہ میں ایک بلوچ ہوں کیونکہ دیگر سارے لوگ بیٹھے ہیں آپ ان میں سے کسی کے سامان کو بھی ہاتھ لگا رہے سیدھا ہمارے پاس آکر کہتے ہو کہ آپ کھڑے ہوجاؤ اس کے باوجود کے میرے گھٹنے میں درد ہے میں کھڑا ہوجاتا ہوں۔
’ میں انھیں کہتا ہوں کہ آپ بھی مجھے جانتے ہو یہ مجھے حسن کارکرگی پر صدارتی سند ملی ہوئی ہے، یہ میرا شناختی کارڈ ہے وہ کہتے ہیں کوئی کارڈ نہیں چلے گا تلاشی ہوگی۔ اس وقت ایسا لگتا ہے کہ ہم وہاں مرجائیں۔ ہم کس ملک میں رہتے ہیں سانس لینا مشکل ہوگیا ہے، ہم نے اپنی زندگی اس ملک کے لیے وقف کردی اور ہماری پہچان ہی نہیں بن سکی ہے۔
اختر چنال بچپن سے ہی گاتے چلے آئے ہیں، بقول ان کے وہ بنیادی طور پر چرواہے ہیں، یہ لوک گیت ان کے ساتھ ساتھ چلتے ہیں، ان کی بھی بھیڑ بکریاں ہوا کرتی تھیں اور رات کو بیٹھتے اور گنگناتے تھے۔
65سالہ اختر چنال کے والد محکمہ جیل خانہ جات بلوچستان میں ملازم تھے، مستونگ میں جب ان کا تبادلہ ہوا تو وہاں سے اختر چنال نے باضابطہ گائیکی کی دنیا میں قدم رکھا، ان کے مطابق مستونگ میں گانے بجانے کا ماحول تھا اور وہاں سے انھیں لت لگ گئی، جب ان کی بارہ سے تیرہ برس میں شادی ہو گئی تو انھیں کچھ آزادی ملی۔
’والد نے سمجھا کہ بچہ جوان ہوگیا اور میں محفلوں میں آنے جانے لگا۔ سنہ 1964 میں میونسپل کمیٹی میں ایک پروگرام ہوا تھا، مجھے مستونگ کی نمائندگی دی گئی میری پرفارمنس پر ایک روپیہ انعام ملا تھا وہاں سے میں نے گائیکی کی ابتدا کی، بعد میں 1973 سے میں نے ریڈیو پر گانا شروع کیا، اس کے بعد 1974 میں ٹی وی آگیا۔
اختر چنال کو شہرت کی اونچائی پر کوک اسٹوڈیو میں گائے گئے گیت ’دانہ پے دانہ نے بخشی۔‘
اختر چنال کا کہنا ہے کہ کوک اسٹوڈیو نے بڑا کمال یہ کیا جو انھیں نئی نسل سے متعارف کرایا اس کے علاوہ انھوں ایک تجربہ بھی دیا کہ فیوزن کیسے کرتے ہیں۔
اختر بلوچستان کے سورماؤں اور دھرتی سے محبت کے گیت گاتے ہیں، بقول ان کے بلوچستان میں کچھ عشقیہ داستان ہیں لیکن جیسے ہر گلوکار کا اپنا اسٹائل ہوتا ہے، وہ تاریخ پسند کرتے ہیں اسی لیے اس کو زیادہ گاتے ہیں۔
بلوچستان گذشتہ ایک دہائی سے ایک شورش زدہ علاقہ ہے، جہاں پہلے کی مقابلے میں موسیقی کی محفلیں کم ہوتی ہیں، اختر چنال کا کہنا ہے کہ انھوں نے نجی محفلوں سے ہی نام کمایا ہے لیکن اب وہ خوشیاں اور آزادی نہیں ہے تاہم صرف بلوچستان نہیں پورے پاکستان میں ایک ہی جیسا خوف ہے کہ کچھ ہو نہ جائے ۔
اختر چنال نے متنازعہ بھارتی فلم فینٹم کے لیے بھی ایک گیت گایا تھا جو فلم میں شامل نہیں کیا گیا، انھوں نے بتایا کہ انھیں آئٹم سانگ گانے کے لیے کہا گیا تھا اور رابطہ کار نے غلط بیانی کی کہ یہ گیت سلمان خان اور کترینا کیف پر فلمایا جائے گا اور یہ نہیں بتایا کہ اس میں سیف علی خان ہے۔
اختر چنال نے بتایا کہ اس گیت کے لیے انھیں لاہور بلایا گیا اور بتایا گیا کہ میوزک پریتم صاحب نے بنایا ہے آپ اس گیت کو ریکارڈ کریں، جب میں نے اس کو پڑھا تو میرے اندر والے نے کہا کہ یہ ٹپوری ٹائپ کا گانا ہے، افغان جلیبی معشوق فریبی۔اس میں چند الفاظ قابل اعتراض تھے میں نے یہ ریکارڈ کرنے سے انکار کردیا۔
’میں نے انھیں کہا کہ میں پلے بیک سنگر نہیں ہوں، میں ایک آزاد قسم کا لوک فنکار ہوں اتنا اچھا کیسے گاوں گا۔ پریتم نے کہا کہ ہمیں آپ کی ٹون میں چاہیے میں نے کہا کہ یہ عجیب سی ٹون ہے آپ کو سوٹ نہیں کرے گی، انھوں نے الفاظ میں بھی رد و بدل کی اجازت دے دی، جس کے بعد میں نے اسے گایا۔‘
’مقتول جگر ، قاتل نظر، ایک ماہ جبین۔ گردن صراحی۔ افغان جلیبی، معشوق فریبی ۔ بھئی واہ ۔ بعد میں مجھے پتہ چلا کہ اس فلم کا مقصد کچھ اور تھا۔
Comments are closed.